تاریخِ اسلامی میں جھوٹے راویوں کا کرداراور تدوینِ جدید کی ضرورت

(۲/۲)

 

از: مفتی ابوالخیر عارف محمود

استاذ ورفیق شعبہٴ تصنیف وتالیف جامعہ فاروقیہ، کراچی

 

ابن جریر طبری کا مذہب

          تاریخ طبری کے مصنف” ابن جریر طبری “کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ سنی شافعی المسلک تھے،طبقاتِ شافعیہ اور دیگر رجال کی کتابوں میں یہی مذکور ہے بعد میں وہ درجہٴ اجتہاد پر فائز ہوگئے تھے اور فقہائے مجتہدین کی طرح ان کا بھی مستقل مکتبِ فقہ وجود میں آگیا تھا جو ایک عرصہ تک قائم رہا ۔(۱۸) اس موقع پر یہ یاد رہے کہ اسی نام وولدیت سے ایک اور شخص بھی گزرا ہے جو رافضی تھا؛چناں چہ علمائے رجال نے وضاحت کے ساتھ لکھا ہے کہ ابو جعفر محمد بن جریر بن رستم طبری رافضی تھا،اس کی بہت ساری تصانیف بھی ہیں،ان میں سے ایک ”کتاب الرواة عن أھل البیت“ بھی ہے،حافظ سلیمانی رحمہ اللہ کے کلام ”کان یضع للروافض“ کا مصداق بھی یہی شخص ہے۔(۱۹)

           علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ ابن جریر طبری (سنی)کے بارے میں(مسح رجلین کے قائل ہونے کاشبہ) اس لیے پیدا ہوا؛ کیوں کہ ابن جریر جو مسح رجلین کا قائل تھا وہ ان کے علاوہ ایک اور شخص ہے جو شیعی تھا،ان دونوں کا نام اور ولدیت ایک جیسی ہے، میں نے اس (ابن جریر شیعی) کی شیعہ مذہب کے اصول و فروع کے بارے میں کتابیں دیکھیں ہیں ۔(۲۰)حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ابن جریر کے بارے مسح رجلین کے قائل ہونے کی جو حکایت بیان کی جاتی ہے تو اس سے مراد محمد بن جریر بن رستم رافضی ہے؛ کیوں کہ یہ ان کا مذہب ہے،(نہ کہ اہل سنت کا)۔ (۲۱)چوں کہ دونوں کا نام ولدیت اور کنیت ایک جیسی ہے؛ اس لیے بہت سارے خواص بھی اس سے دھوکہ کھا جاتے ہیں،پہچان کا طریقہ یہ ہے کہ دونوں کے دادا کا نام جدا جدا ہے،سنی ابن جریر کے داد کا نام یزید ہے اور رافضی ابن جریر کے دادا کا نام رستم ہے۔(۲۲)

           خود شیعہ مصنّفین اور اصحابِ رجال میں سے بحرالعلوم طباطبائی،ابن الندیم، علی بن داوٴد حلّی، ابو جعفر طوسی،ابو العباس نجاشی اور سیّد خوئی وغیرہ نے ابن جریر بن رستم طبری کا اہلِ تشیع میں سے ہونے کی تصریح کی ہے۔(۲۳) بہرحال دونوں ناموں اور ولدیت و کنیت میں تشابہ ہے، اسی تشابہ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شیعہ علماء نے ابن جریر شیعی کی بہت ساری کتابوں کی نسبت ابن جریرسنی کی طرف کرنے کی کوشش کی ہے؛ چناں چہ ڈاکٹر ناصر بن عبداللہ بن علی قفازی نے ”أصول مذھب الشیعة الإمامیة الإثني عشریة عرض و نقد“ میں لکھا ہے :”روافض نے اس تشابہ کو غنیمت جان کر ابن جریر سنی کی طرف بعض ان کتابوں کی نسبت کی ہے جس سے ان کے مذہب کی تائید ہوتی ہے،جیسا کہ ابن الندیم نے الفہرست،ص:۳۳۵ میں ”کتاب المسترشد في الإمامة“ کی نسبت ابن جریر سنی کی طرف کی ہے؛ حالاں کہ وہ ابن جریر شیعی کی ہے،دیکھیے: طبقات أعلام الشیعة في المائة الرابعة،ص:۲۵۲،ابن شہر آشوب،معالم العلماء، ص:۱۰۶،آج بھی روافض بعض ان اخبار کی نسبت امام طبری کی طرف کرتے ہیں جن سے ان کے مذہب کی تائید ہوتی ہے؛حالاں کہ وہ اس سے بری ہیں،دیکھیے: الأمیني النجفي، الغدیر: ۱/۲۱۴-۲۱۶۔ روافض کے اس طرزِ عمل نے ابن جریر طبری سنی کو ان کی زندگی میں بہت سارے مصائب سے دوچار کیا؛ یہاں تک کہ عوام میں سے بعض لوگوں نے انھیں رفض سے متہم بھی کیا، جیسا کہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔(دیکھیے:البدایة و النھایة: ۱۱/۱۴۶)(۲۴)

موضوعِ بحث

          اس وقت ہمارا موضوع ِ بحث علامہ ابن جریر بن یزید طبری اور ان کی تاریخ ہے ، موصوف چوں کہ بڑے اور بلند مرتبہ کے عالم تھے، خاص کر قرونِ ثلاثہ کی تاریخ کے حوالہ سے ان کا نام اور کتاب کسی تعارف کے محتاج نہیں ،قدیم و جدید تمام موٴرخین نے ان سے استفادہ کیا ہے۔

تاریخِ طبری کا اجمالی جائزہ

          ان ساری خصوصیات کے باوجود تاریخ طبری میں جگہ جگہ حضرات صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم سے متعلق ایسی بے بنیاد اور جھوٹی روایات مروی ہیں، جن کی کوئی معقول و مناسب توجیہ نہیں کی جاسکتی ہے ،جب کہ عدالتِ صحابہٴ کرام پرموجود قطعی نصوص قرآن و سنت اور اجماعِ امت کے پیش نظر منصف مزاج اہل علم امام طبری اور خاص کر ان کی تاریخ میں مروی اس طرح کی روایات پر کلام کرنے پہ مجبور ہوئے ہیں،تاریخ طبری بڑے بڑے دروغ گو ، کذّاب اور متہم بالکذب راویوں کی روایات سے بھری ہوئی ہے، بطور مثال کے تاریخ طبری کی روایات کا ایک جائزہ لینے کے لیے ڈاکٹرخالد علال کبیر صاحب نے تاریخ طبری میں موجود ثقہ و غیر ثقہ راویوں کی روایات کا ایک اجمالی خاکہ پیش کیا ہے؛چناں چہ وہ لکھے ہیں کہ تاریخِ طبری میں اس کے بارہ (۱۲) مرکزی رواة کی روایات کا جائزہ لیتے ہیں ، جن میں سے سات راوی کذّاب یا متہم بالکذب ہیں اور پانچ ثقہ ہیں۔

دروغ گواور متہم بالکذب راویوں کی روایات کا اجمالی خاکہ

          محمد بن سائب کلبی کی بارہ (۱۲) روایات،حشام بن محمد کلبی کی پچپن (۵۵) روایات ،محمد بن عمر کی چار سو چالیس (۴۴۰)روایات ،سیف بن عمر تمیمی کی سات سو (۷۰۰)روایات ،ابو مخنف لوط بن یحی ٰ کی چھ سو بارہ (۶۱۲)روایات،ہیثم بن عدی کی سولہ(۱۶) روایات،محمد بن اسحاق بن سیار (یسار)(۲۵) کی ایک سو چونسٹھ (۱۶۴)روایات ہیں،ان سب کی روایات کا مجموعہ جن کو موٴرخ طبری نے اپنی تاریخ میں نقل کیا ہے وہ انیس سو ننانوے( ۱۹۹۹) ہے۔

ثقہ راویوں کی روایات کا اجمالی خاکہ

          زبیر بن بکار کی آٹھ(۸)روایات ،محمد بن سعد کی ایک سو چونسٹھ (۱۶۴)روایات ،موسی بن عقبہ کی سات(۷)روایات ،خلیفہ بن خیاط کی ایک(۱) روایت ،وھب بن منبہ کی چھیالیس (۴۶)روایات ہیں۔تاریخ طبری کے ان پانچ ثقہ راویوں کی روایات کا مجموعہ دو سو نو(۲۰۹) ہے۔

          تو گویا تاریخ طبری میں دو سو نو( ۲۰۹)ثقہ روایات کے مقابلہ میں ان سات دروغ گو اور متہم بالکذب راویوں کی انیس سو ننانوے( ۱۹۹۹) روایات ہیں، ان دونوں کے تناسب سے اندازہ لگاجاسکتا ہے کہ تاریخ طبری جیسی قدیم اور مستند سمجھی جانے والی کتاب کا جب یہ حال ہے تو تاریخ کی باقی کتابوں کا کیا حال ہوگا۔(۲۶)

علامہ طبری کا اعتراف

          مذکورہ بالا باتوں کی تائید خود علامہ طبری کا اپنی تاریخ کے مقدمہ کے اس اعتراف سے بھی ہوتی ہے، جس میں انہوں نے واضح طور سے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب میں بغیر نقدو تمحیص کے مختلف فرقوں اور گروہوں کے راویوں کی روایات کو ان کی اسانید کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ چناں چہ قارئین کے اطمینان قلبی کی خاطر علامہ طبری کی وہ پوری عربی عبارت پیش خدمت ہے، جس میں انہوں نے محض سند کے ساتھ بغیر نقد و تمحیص کے روایات ذکر کرنے کا اعتراف کیا ہے:

          ”فَمَا یَکُنْ فِيْ کِتَابِيْ ھَذا مِنْ خَبَرٍ ذَکَرْناہ عن بَعْضِ الماضِیْنَ مِمَّا یَسْتَنْکِرُہ قَارِیہِ، أو یَسْتَشْنَعُہ سَامِعُہ، مِنْ أَجَلِ أنَّہ لَمْ یَعْرِفْ لَہ وَجْھاً فِي الصِّحَّةِ، وَلاَ مَعْنًی فِي الْحَقِیْقَةِ، فَلِیُعْلَمْ أنَّہ لَمْ یُوٴْتِ فِيْ ذٰلِکَ مِنْ قَبْلِنَا، وَ إنَّمَا مِنْ قِبَلِ بَعْضِ نَاقِلِیْہِ إِلَیْنَا، وَأنّا إنَّما أدَّیْنَا ذلِکَ عَلی نَحْوِمَا أُدِّيَ إلَیْنَا“(۲۷)

          محترم قارئین کرام! کیا صرف سند کے ساتھ رطب و یابس، غث و سمین اور ثقہ و غیر معتبر ہر طرح کی روایات کا نقل محض کسی بھی ثقہ مصنف کے لیے معقول عذر بن سکتا ہے؟ اس پر اپنی ذاتی رائے اور نقطئہ نظرپیش کرنے کی بجائے ہم محقق علماء کی آرا نقل کر کے فیصلہ انصاف پسند قارئین پر چھوڑتے ہیں۔

 علامہ ذہبی اور حافظ ابن حجر کا اعتراف

          اس میں تو کوئی شک نہیں کہ ابن جریر طبری ائمہٴ جرح و تعدیل کے نزدیک ثقہ ہیں؛لیکن ان کے بارے میں تشیع کی طرف میلان کا قول بھی مروی ہے؛ چناں چہ علامہ ذہبی اور حافظ ابن حجر رحمھما اللہ نے ان کی توثیق کرنے کے ساتھ ساتھ دبے لفظوں میں ان کے تشیع کی طرف میلان کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا ہے:” ثِقَةٌ صَادِقٌ فِیْہ تَشَیُّعٌ یَسِیْرٌ وَ مُوَالَاةٌ لَاتَضُرُّ“(۲۸) شاید ان دونوں حضرات کے کلام کامقصد یہ ہو کہ چوں کہ علامہ طبری نے اپنی تاریخ میں ایسی روایات بغیر نقد و کلام کے نقل کی ہیں،جن سے ان کا تشیع کی طرف میلان معلوم ہوتا ہے ،لہٰذا اس تصریح کے بعد طبری کی وہ تمام روایات جن سے اہلِ تشیع کے مخصوص افکار کی تائید ہوتی ہے وہ غیر معتبر قرار پائیں گی۔

محقق عصر مولانا محمد نافع صاحب کا تبصرہ

          تاریخ طبری میں منقول معتضد با للہ عباسی کا رسالہ جسے موٴرخ طبری نے ۲۸۴ھ کے تحت بلا کسی نقد و تحقیق و تمحیص اور کلام کے نقل کیا ہے، جس میں حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ دونوں حضرات کے خلاف سب و شتم اور لعن طعن کرنے کے جواز میں مواد فراہم کیا اور اس میں موجباتِ لعن و طعن درج کیے ہیں،اس رسالہ پر تنقید کرتے ہوئے ”الطبری کی حکمتِ عملی“ کے تحت محققِ عصر، یگانہٴ روزگار اور عبقری شخصیت حضرت مولانا محمد نافع صاحب دامت برکاتہم العالیہ، فاضل دارالعلوم دیوبند نے” فوائدِنافعہ “میں جو کچھ فرمایا وہ من و عن پیش خدمت ہے:

          ”غور طلب بات یہ ہے کہ صاحب التاریخ محمد ابن جریر الطبری کے لیے عباسیوں کے اس فراہم کردہ غلیظ مواد کو من و عن نقل کے کے اپنی تصنیف میں شامل کرنے کا کون سا داعیہ تھا؟اور اس نے کون سی مجبوری کی بنا پر یہ کارِ خیرانجام دیا؟ گو یا الطبری نے اس مواد کو اپنی تاریخ میں درج کر کے آنے والے لوگوں کو اس پر آگاہ کیا اور سب وشتم اور لعن طعن کے جو دلائل عباسیوں نے مرتب کروائے تھے، ان پر آئندہ نسلوں کو مطلع کرنے کا ثواب کمایا؟چناں چہ شیعہ اور روافض رسالہٴ مذکورہ میں مندرجہ مواد کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اپنی کتب میں ابو سفیان رضی اللہ عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر مطاعن قائم کرتے ہیں اور شدید اعتراضات پیدا کرتے ہیں۔(۲۹)

 مولانا مہرمحمد صاحب کی رائے

          ابن جریر طبری کا مذہب ،اس عنوان کے تحت مولانا مہرمحمد صاحب رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ یہ وہی امام طبری المتوفی ۳۱۰ھ ہیں جنہیں اہلِ بغداد نے تشیع سے متہم کر کے اپنے قبرستان میں دفن نہ ہونے دیا تھا(۳۰)،گو شیعہ نہیں ہیں؛ تاہم اپنی تاریخ یا تفسیر میں ایسی کچی پکی روایات خوب نقل کر دیتے ہیں جو شیعہ کی موضوع یا مشہور کی ہوئی ہوتی ہیں۔ (۳۱)

عرب علماء کی رائے

          معاصر عرب اہل علم حضرات میں سے ڈاکٹر خالد علال کبیر صاحب (۳۲)نے اپنی کتاب ”مدرسة الکذابین في روایة التاریخ الإسلامي و تدوینہ“ میں موٴرخ طبری کے اس مخصوص طرزِ عمل کے بارے میں لکھا ہے کہ میرے نزدیک انھوں نے یہ (یعنی تحقیق و تمحیص کے بغیر صرف اسانید کے ساتھ روایات کو نقل کر کے) ایک ناقص کام کیا ہے، اور ان تمام روایات کے وہ خود ذمہ دار ہیں جو انہوں نے اپنی تاریخ میں مدون کی ہیں،پس انہوں نے عمداً دروغ گو راویوں سے بہ کثرت روایات نقل کیں اور ان پر سکوت اختیار کیا، یہ انتہائی خطرناک معاملہ ہے جو بعد میں آنے والی بہت ساری نسلوں کی گمراہی کا سبب بنا، انھیں (طبری) چاہیے تھا کہ وہ ان دروغ گو رایوں کا بغیر ضرورت کے تذکرہ نہ کرتے، یا ان پر نقد کرتے اور ان کی روایات کی جانچ پڑتال کرتے، صرف ان کی اسانید کے ذکر پر اکتفا کر کے سکوت اختیار نہ کرتے۔ نقدِ روایات اس لیے ضروری تھا کہ تاریخِ طبری کا مطالعہ کرنے والوں میں غالب اکثریت ان لوگوں کی ہے جن میں اتنی علمی صلاحیت نہیں ہوتی کہ وہ ان روایات پر سند و متن کے اعتبار سے نقد کرسکیں،اگر اس سے استفادہ کرنے والے صرف حدیث، تاریخ و دیگر علوم میں متبحر ہوتے تو یہ طے شدہ بات تھی کہ وہ نقد و تمحیص کا عمل انجام دیتے۔ (۳۳)

          ڈاکٹر صاحب موصوف مزید لکھتے ہیں کہ اس معاملہ کو اس سے بھی زیادہ سنگین اس بات نے کردیا کہ طبری کے بعد آنے والے اکثر موٴرخین نے قرونِ ثلاثہ کے بارے میں ان سے بہ کثرت روایات نقل کی ہیں ، جیسا کہ ابن جوزی نے اپنی کتاب ”المنتظم“‘ میں، ابن الاثیر نے ”الکامل“ میں اور ابن کثیر نے ”البدایہ“ میں بغیر سند کے نقل کیا ہے، اور ان حضرات کا اس طرح بغیر سند کے روایات نقل کرنے سے ثقہ اور دروغ گو راویوں کی روایات خلط ملط ہوگئیں ہیں، بسا اوقات تاریخ طبری کی طرف مراجعت کے بغیر ان روایات میں تمیز مستحیل ہوجاتی ہے۔(۳۴)

 افتراق و انتشار اور گروہی اختلافات کی اساس

          غرض کذّاب اور دروغ گو رایوں کی موضوع ومن گھڑت اور نصوص شریعت و حاملینِ دین متین سے متصادم روایات ہی امتِ مسلمہ میں افتراق و انتشار اور تمام گروہی اختلافات کی اساس و بنیاد ہیں، جن کو صراطِ مستقیم سے منحرف فرقوں نے جب مذہبی قداست کا لبادہ اوڑھا دیا تو اس مکتبہٴ فکر کے ماننے والوں نے ان روایات کو دین اور رجال پر طعن کرنے ، گمراہ افکارکی نصرت و تائید ، مسلمہ حقائق اور متوارث تاریخ اسلامی میں تشکیک پیدا کرنے کے لیے بطور سلاح کے استعمال کرنا شروع کردیا۔

اتحادِ امت کا نسخہ کیمیا

          امتِ مسلمہ کا درد رکھنے والا منصف مزاج محقق ضرور اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ ان دروغ گو مکتبہ فکر کے گمراہ لوگوں نے اپنے مخصوص افکار و عقائد کی بنیاد اپنے مکتبہٴ فکر کے ان مخصوص اور دروغ گو رایوں کی روایات پر رکھی ہے، اور قرآنِ کریم اور سنتِ صحیحہ و دیگر نصوصِ شریعت کو درخور اعتنا نہیں سمجھا، اگر یہ گمراہ فرقے آج بھی قرآنِ کریم، سنتِ صحیحہ اور دیگر متواتر و قطعی نصوص شریعت کی طرف رجوع کریں گے تو امتِ مسلمہ میں ہر طرح کے اختلاف ختم ہو جائیں اور یہ امت پھر سے ایک جسد و قلب کی مانند متفق و متحد ہو جائے گی،امتِ مسلمہ کے اتحاد کا یہی ایک نسخہ کیمیا ہے۔

تدوینِ جدید کی ضرورت

          موجودہ حالات میں امتِ مسلمہ کے اختلافات، انتشار اور فرقوں میں تقسیم کو دیکھتے ہوئے ایک معتدل اور امت کا درد رکھنے والا موٴرخ ضرور تاریخِ اسلامی کی تدوین جدید کی آواز اٹھائے گا، تدوینِ جدید کے لیے کیا جانے والا جدید مطالعہ درج ذیل نکات کی روشنی میں ہو تو زیادہ مفید، موٴثر اور نتیجہ خیز ثابت ہو سکتا ہے:

          ۱۔شریعتِ مطہرہ اور درایت و عقل کے خلاف روایت مردودہے؛ چناں چہ علما ء نے صراحت کی ہے کہ جو روایت بھی درایت اور عقل کے خلاف ہو ، یا اصولِ شریعت کے مناقض ہو تو جان لیں کہ وہ روایت موضوع ہے اور اس کے راویوں کا کوئی اعتبار نہیں اسی طرح جو روایت حس اور مشاہدہ کے خلاف ہو ، یا قرآن کریم، سنتِ متواترہ اور اجماعِ قطعی کے مبائن ہو تو وہ روایت بھی قابلِ قبول نہیں ۔(۳۵)

          ۲۔ صحابہ وائمہ دین کی عیب جوئی سے متعلق روایت بھی قابلِ اعتبار نہیں؛کیوں کہ روایات وضع کرنے والوں میں بعض لوگ وہ ہیں جنہوں نے حضراتِ صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم اور ائمہٴ دین کی برائیاں اور عیب بیان کرنے کے لیے ،یا اپنے دیگر مذموم اغراض و مقاصد کی تکمیل کے لیے روایات وضع کی ہیں ، ان کا یہ عمل یا تعنت و عناد کی وجہ سے ہے یا تعصب و فساد کی وجہ سے ہے ، پس ان لوگوں کی روایات کا کوئی اعتبار نہیں؛ جب تک کہ ان کی کوئی سند معتمد نہ پائی جائے، یا سلفِ صالحین میں سے کسی نے اس پر اعتماد نہ کیا ہو۔(۳۶)

          علامہ نووی رحمہ اللہ نے قاضی عیاض اور علامہ مازری رحمھما اللہ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ ہمیں حضراتِ صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ حسنِ ظن رکھنے اور ہر بری خصلت کی ان سے نفی کا حکم دیا گیا ہے ؛ لہٰذا اگر ان کے بارے میں کسی روایت میں اعتراض پایا جائے اور اس کی صحیح تایل کی کوئی گنجائش نہ ہو تو اس صورت میں ہم اس روایت کے راویوں کی طرف جھوٹ کی نسبت کریں گے۔(۳۷)

          علامہ عبدالعزیز فرہاروی رحمة اللہ نے لکھا ہے کہ اس بارے میں اہلِ سنت کا مذہب یہ ہے کہ جہاں تک ممکن ہو اس کی مناسب تاویل کی جائے اور اگر مناسب تاویل ممکن نہ ہو تو اس روایت کو رد کر کے سکوت اختیار کرنا واجب ہے اور طعن کو بالیقین ترک کرنا ہوگا؛ اس لیے کہ حق سبحانہ و تعالی نے تمام صحابہٴ کرام سے مغفرت اور جنت کا وعدہ کیا ہے۔(۳۸)

          ۳۔نہایت اعتدال کے ساتھ ان تمام موٴرخین کی کتابوں سے ثقہ اور جھوٹے و کذّاب راویوں کی روایات میں تمیز کیا جائے، جنہوں نے اپنی کتابوں میں دونوں طرح کی روایات کو جگہ دی ہے، جیسا کہ خلیفہ بن خیاط، محمدبن سعد ، زبیر بن بکار ، موسی بن عقبہ، وھب بن منبہ ،ابن جریر طبری اور ابن اثیر وغیرہ۔

          ۴۔تاریخی روایات کی سند اور متن ہر دو اعتبار سے نقد و تمحیص و تحقیق کے مسلمہ قواعد کی روشنی میں جائزہ لے کر ان پر محتاط و محققانہ کلام کیا جائے۔

          ۵۔اس بات میں بھی تفریق ضروری ہے کہ موٴلف اور صاحبِ تاریخ خود تو ثقہ ہیں؛ لیکن اس نے نقل واقعات و روایات میں دروغ گو اور کذّاب راویوں پر اعتماد کیا ہے، جیسا کہ ابن جریر طبری کا حال ہے ، ایسی صورت میں اس موٴرخ کی صرف ثقہ راویوں والی روایات مقبول قرار پائیں گی، دروغ گو و کذّاب رواة کی روایات مردود سمجھی جائیں گی۔(۳۹)

          ۶۔اگر صاحبِ تاریخ خود کذّاب ودروغ گو ہو تو پھر اس کی کتاب میں موجود ثقہ لو گوں کی روایات بھی غیر معتبر قراردے دی جائیں گی۔

          ۷۔اصل اور ضابطہ تو کذاب راویوں کی روایات کے بارے میں عدمِ قبولیت کا ہے ؛البتہ اگر ان کی کوئی روایت ،قرآنِ کریم، سنتِ مبارکہ اور اجماعِ امت کے مخالف نہ ہو تو دیگر ثقہ راویوں کی روایت کی تائید میں قرائن ومرجحات کی موجودگی میں قبول کرنے کی گنجائش ہوگی۔

          ۸۔دینی امور ، صحابہٴ کرام ، ائمہ و سلفِ صالحین کے علاوہ دیگر دنیاوی معاملات میں اگر کسی ثقہ راوی کی روایت دستیاب نہ ہو تو بصورت مجبوری دروغ گو راویوں سے منقول روایات نقلِ واقعہ کی غرض سے ذکر کرنے کی گنجائش ہوگی؛مگر اس سے علمِ یقین حاصل نہ ہو گا۔

          ۹۔ تاریخ اور تحقیق کے نام پر محض موٴرخین کی ذکر کردہ روایات سے اخذ کردہ نتائج بھی غیر مقبول شمار ہوں گے؛ البتہ حقیقی اور مسلمہ اصولوں کے تحت روایت قابل قبول قرار پائے تو اس سے ماخوذ نتائج درست قرار دیے جائیں گے۔

          ۱۰۔اس پورے عمل کے دوران اس بات کا استحضار رہے کہ ہماری تاریخ دروغ گو مکتبہٴ فکر کی اغواکاری کا شکار رہی ہے، لہٰذا معمولی سی غفلت بھی موجودہ اور آئندہ آنے والی امتِ مسلمہ کی نسلوں میں تشکیک ، تحریف ، تضلیل ، ائمہٴ دین و اسلاف سے بیزاری اور گروہی اختلافات کی آڑ میں ان تاریخی روایات کی بنیاد پرکُشت و خون کی ہولیاں کھیلے جانے کا سبب بن سکتی ہے۔(۴۰)

          أللھم أرنا الحقّ حقّاً وارزقنا اتباعہ و أرنا الباطل باطلاً وارزقنا اجتنابہ

$ $ $

 

حواشی و حوالہ جات

(۱۸)          طبقات الشافعیة الکبریٰ:۲/۱۳۵۱۳۸،تذکرة الحفاظ : ۲/۷۱۶۷۱۰،میزان الاعتدال :۳/۴۹۸، ۴۹۹، لسان المیزان :۵/۱۰۰، ۱۰۳

(۱۹)           تذکرة الحفاظ : ۲ / ۷۱۰ ۷۱۶،میزان الاعتدال :۳/۴۹۸،۴۹۹،لسان المیزان :۵/۱۰۰،۱۰۳

(۲۰)          حاشیة الإمام ابن القیم علی سنن أبي داوٴد في ذیل عون المعبود:۲/۲۰۵

(۲۱)           لسان المیزان :۵/۱۰۳

(۲۲)          میزان الاعتدال :۳/۴۹۹،لسان المیزان :۵/۱۰۳

(۲۳)          الفوائد الرجالیة:۷/۱۹۹،مکتبة العلمین الطوسي و بحر العلوم في نجف الأشرف،مکتبة الصادق طھران، الفھرست،ص:۵۸، رجال ابن داوٴد للحلّي:۱/۳۸۶،رجال الطوسي لأبي جعفر الطوسي: ۲/۲۴۲، موٴسسة النشر الإسلامي قم،رجال النجاشي لأبي العباس أحمد بن علي النجاشي: ۱/۳۷۸، موٴسسة النشر الإسلامي قم ،معجم رجال الحدیث للسید الخوئي: ۱/۱۳۲، ۱۲/۱۵۴، ایران

(۲۴)          أصول مذھب الشیعة الإمامیة الإثني عشریة عرض و نقد:۳/۱۴۹

(۲۵)          ڈاکٹر خالد صاحب کی کتاب میں دو بار”یسار“ کی جگہ ”سیار“ آیا ہے ،غالباً یہ کمپوزنگ کی غلطی ہے، محمد بن اسحاق بن یسار کے بارے میں جرح اور تعدیل دونوں طرح کے اقوال ملتے ہیں ؛البتہ ابن اسحاق جمہور کے نزدیک ثقہ ہے،(تعلیقات الشیخ عبد الفتاح أبو غدہ علی الرفع والتکمیل ،ص :۱۱۴ ۔۱۱۶،مکتبة الدعوة ا لإسلامیةبشاور)،لیکن یہ ذہن نشین رہے کہ موصوف چوں کہ تشیع سے بھی متہم ہیں،(تہذیب الکمال:۲۴/۴۱۶،موٴسسة الرسالة)؛ اس لیے ان کی وہ تمام روایات جن سے تشیع کی کسی بھی طرح تائید ہوتی ہے غیر معتبر ہوں گی۔

(۲۶)          تفصیل کے لیے دیکھیے : مدرسة الکذابین فی روایة التاریخ الإسلامي و تدوینیہ، ص:۴۵۔۴۷،دار البلاغ الجزائر

(۲۷)          تاریخ الطبري، خطبة الکتاب : ۱/۱۳

(۲۸)          میزان الاعتدال :۳/۴۹۹،لسان المیزان :۵/۱۰۰

(۲۹)          فوائدنافعہ:۱/۵۷۔۵۸،دار الکتاب لاہور

(۳۰)          معجم الأدباء :۶/۵۱۴

(۳۱)          ہزار سوال کا جواب ،ص:۷۹،مرحبا اکیڈمی

(۳۲)          موصوف نے جامعة الجزائر سے تاریخ اسلامی میں ڈاکٹریٹ کی ہوئی ہے۔

(۳۳)         مدرسة الکذابین في روایة التاریخ الإسلامي و تدوینہ: ۱/۶۷، ۶۸

 (۳۴)        حوالہٴ سابق

(۳۵)         فتح المغیث: ۱/۲۴۹، ۲۵۰

(۳۶)          الأجوبة الفاضلة اللأسئلة العشرة الکاملة ، ص:۲۹

(۳۷)         شرح النووی ، کتاب الجھاد، باب حکم الفيء:۱۲/۲۹۶،دار المعرفة

(۳۸)         الناھیة عن طعن أمیر الموٴمنین معاویة رضی اللّٰہ عنہ ،ص:۶۶،

(۳۹)          مدرسة الکذابین في روایة التاریخ الإسلامي و تدوینہ،ص:۵۳

(۴۰)          حوالہٴ سابق

#        #        #

$ $ $

 

------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 6‏، جلد: 98 ‏، شعبان 1435 ہجری مطابق جون 2014ء